Thursday 2 February 2012

کیا ناممکن واقعی ناممکن ہے؟

ڈاکٹر میشیوکاکو




میں نے بطور طبعیات دان یہ سیکھا ہے کہ ناممکن ایک غیر جمامع  اصطلاح ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہماری ایک استانی نے دیوار پر لگے ہوئے دنیاکے نقشے میں جنوبی امریکی اور افریقی ساحلی پٹی کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں ساحلی پٹیاں باہم ایسی ٹھیک بیٹھتی  ہیں کہ جیسے ایک پزل کا حصہ ہوں، کچھ سائنسدانوں کا یہ اندازہ ہے کہ شاید یہ دونوں کبھی ایک عظیم ترین براعظم کا حصہ تھے ، کیسی بیوقوفانہ بات ہے ، کوئی طاقت ایسی نہیں جو دوبراعظموں کو چیر کر  الگ الگ کردے۔ کچھ عرصے بعد اسی سال ہم نے ڈائنوسارز کے بارے میں پڑھا، کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟؟ ہمارے استاد نے ہم سے سوال کیا، کہ ڈائنوسارز نے زمین پر دسیوں لاکھ سال حکمرانی کی اور ایک دن وہ تمام غائب ہوگئے؟؟ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ تمام کیوں مارے گئے۔کچھ ماہرینِ رکازیات {پالےآنٹولوجسٹ}سوچتے ہیں کہ شاید خلاء سے آنے والاکوئی شہاب ثاقب ان کی ہلاکت کا باعث بنا، لیکن یہ ناممکن ہے اور حقیقت کے بجائے تخیل ہے۔

آج ہمیں معلوم ہے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس کے باعث براعظم درحقیقت کھسکتے ہیں، اور پینسٹھ ملین سال قبل ایک چھ میل طویل عظیم شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا ، غالب امکان یہی ہے کہ اس کی وجہ سے ڈائنوسارز کا خاتمہ ہوا۔ میں نے خود اپنی زندگی میں بار بار ناممکنات کو تسلیم شدہ سائنسی حقیقت بنتے دیکھا ہےتو کیا  پھر ایسا سوچنا غلط ہے کہ ایک دن ہم اپنے آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹیلی پورٹ کرنے کے قابل ہوجائیں گے، یا  ہم ایسے خلائی جہاز بنا سکیں گے جوہیں کئی نوری سال دور ستاروں تک پہنچاسکیں؟۔

ایسے کام جو عمومی طور پر آج کے طبعیات دانوں کے نزدیک ناممکنات ہیں ، کیایہ ممکن ہے کہ چند صدیوں میں ان کا شمار ممکنات میں ہونے لگے؟یا دس ہزار سالوں میں جب ہماری ٹیکنالوجی مزید جدید ہوگی؟ اگر دوسرے الفاظ میں کہیں تو، اگر آج کسی طرح ہماری ملاقات اپنے سے دس لاکھ سال جدید تہذیب سے ہوجاتی ہے تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادوئی لگے گی؟یہ وہ سوال ہے جو اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے۔محض اس لئے کہ آج ایک چیز ناممکن ہے، کیا وہ آنے والے سینکڑوں یا لاکھوں سالوں میں بھی ناممکن رہے گی؟

گزشتہ صدی کی سائنسی ترقی خصوصا نظریہ کوانٹم طبعیات اور نظریہ عمومی اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  یہ اب ممکن ہے کہ ہم ایک اندازہ لگا سکیں کہ کب، اگرممکن ہوا تو ،ایسی حیرت انگیز ٹیکنالوجی حقیقت بن سکے گی۔اسٹرنگ تھیوری جیسے جدید تر نظریے کے آنے بعد تو سائنس اور تخیل کی سرحد پر موجود ، وقت میں سفر اور متوازی کائنات جیسے تصورات  کو بھی طبعیات دانوں نے نئی نظر سے پرکھنا شروع کردیاہے۔ذرا ڈیڑھ سو سال قبل کا تصور کریں، ایسی ٹیکنالوجیکل ترقی جو اس وقت کے سائنسدانوں نے ناممکن قرار دی تھی اجکل ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ اٹھارہ سو تریسٹھ میں یولیس ورنے کا ناول "بیسویں صدی کا پیرس" ناشر مقفل کرکے بھول گیا جو کہ بعد ازاں اس کے پڑپوتے کو انیس سو چورانوے میں ملا اور اس نے اسےشائع کیا۔ناول کا تخیلاتی پیرس انیس سے ساٹھ کی اصل پیرس سے مماثلت رکھتا تھا، اس ناول میں ایسی کئی ایجادات کا ذکر ہے جنہیں اس زمانے میں ناممکن تصور کیا جاتا تھاجن میں فیکس مشین، بین الاقوامی مواصلاتی نظام، شیشے کی بنی فلگ شگاف عمارتیں، ایدھن سے چلنے والی گاڑیاں اور تیز رفتار ریل گاڑیاں شامل ہیں ۔ ورنے کی یہ کامیاب پیشنگوئیاں کوئی حیران کن امر نہیں ہے، ورنے سائنس کو سمجھتا تھا اپنے دور کے سائنسدانوں سے معلومات حاصل کرتا رہتا تھا،بنیادی سائنس کا یہ علم اس کے ان کامیاب پیشنگوئیوں کا سبب بنا۔

مایوسی کی بات یہ ہے کہ  سے انیسویں صدی کے کچھ عظیم ترین سائنسدانوں نے مخالف رائے اختیار کی اورکئی ٹیکنالوجیز کو ناممکن قرار دیا۔ وکٹورین دور کے غالبا سب سے ممتاز طبعیات دان لارڈ کیل ون{ان کی آخری آرامگاہ ویسٹ منسٹر ایبی میں سرآئزک نیوٹن کے پہلو میں ہے}، نے ہوا سے بھاری تمام اختراعات {ہوائی جہاز وغیرہ ۔مترجم}کو ناممکن قرار دیا تھا، ان کے نزدیک ایکس رے ایک فریب جبکہ ریڈیو کا کوئی مستقبل نہ تھا۔  ایٹم کا نیوکلیئس دریافت کرنے والے لارڈ راتھرفورڈنےنہ   صرف ایٹم بم کی تیاری کو ناممکن قرار دیا تھابلکہ اس کے تیاری کے عمل کو کچی شراب کی تیاری کے مترادف قرار دیکر اسکامذاق بھی اڑایا تھا۔
انیسویں صدی کے کیمیاء دانوں نے پارس پتھر {ایک ایسی افسانوی شے جو سیسے کو سونے میں تبدیل کردے}کو سائنسی اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا لیکن انیسویں صدی کی کیمیاء دانی عناصر کے بنیادی عدم تغیرکے اصول پرمبنی تھی، ہم اب آج کل کی ایٹم توڑ مشینیں استعمال کرکے نظری طور پر سیسے کے ایٹم کو سونے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ذرا سوچئے موجودہ زمانے کے ٹی وی، کمپیوٹر،اور انٹرنیٹ بیسویں صدی کے آغاز میں کیسے شاندار اور ناقابل یقین لگتے۔
ماضی قریب میں جھانکیں توبلیک ہولز کبھی سائنسی تخیل مانے جاتے تھے، خود آئن اسٹائین نے انیس سو انتالیس میں ایک مقالہ لکھتا تھا جس میں انہوں نے"ثابت "کیا تھا کہ بلیک ہولز کبھی نہیں بن سکتےمگر آج ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ اورچندرا ایکس رے ٹیلی اسکوپ خلاء میں ہزاروں بلیک ہولز دریافت کرچکیں ہیں۔اس ٹیکنالوجیکل جدت کو ناممکنات سمجھنے کی اصل  وجہ انیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں کے شروع میں طبعیات اور سائنس کے بنیادی اصولوں کے علم کا فقدان تھا، اگر اس ذمانے میں ہمارے سائنسی علم و فہم میں، خصوصا ایٹمی سطح پر موجود خلاء  کو مدنظر رکھا جائےتو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ ٹیکنالوجیکل جدت کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ناممکنات پرسنجیدگی سے تحقیق سائنسدانوں کو بارہا  سائنس کی ایک بلکل غیر متوقع اور نئی شاخ پر تک لے گئی ہے، مثال کے طور پرصدیوں کی بے ثمر اور مایوس کن تلاش کے بعد طبعیات  دان اس نتیجے پر پہنچے کہ "پرپیچول موشن مشین" {ایک ایسی مشین جوچلنے کے لئے جتنی توانائی استعمال کرے چلتے وقت اتنی ہی یا اس سے زائد توانائی پیدا بھی کرے، دوسرے الفاظ میں ایک بار حرکت میں آنے کے بعد ہمیشہ حرکت میں رہے۔ مترجم}بنانا   ناممکن ہےلیکن اس ناکامی سے سائنسدانوں نے  قانون بقائے توانائی{کنزرویشن آف انرجی}  اور حر حرکیات  {تھرموڈائنامکس }کے تین قانون سیکھے چناچہ ایک بے ثمر تلاش نے سائنس کی بلکل نئی شاخ حرحرکیات کی بنیاد رکھی  جس نے جزوی طور پر بھاپ کے انجن کی بنیاد فراہم کی  اور وسیع تناظر میں مشینی دور اور جدید انڈسٹریل تہذیب کی بنیاد رکھی۔

انیسویں صدی کے آخر میں سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ یہ ناممکن ہے کہ زمین کی عمر اربوں سال ہے، لارڈ کیل ون نے اعلان کیا کہ زمین کا پگھلی ہوئی حالت سے اسکے ٹھنڈے ہونے میں محض بیس سے چالیس ملین سال لگے ہوں گے یہ دعویٰ  ماہرین ارضیات اور ڈاروینین ماہرین حیاتیات کہ دعوے کہ زمین کی عمر اربوں سال ہے سے متصادم تھا لیکن یہ ناممکن بھی بلاخر مادام کیوری و دیگر کی دریافت جوہری طاقت {نیوکلیئر فورس} کے منظر عام پر آتے ہیں ممکن ثابت ہوگیا، جوہری طاقت نے ثابت کیا کہ زمین کا مرکز  کس طرح تابکاری {ریڈیو ایکٹیو ڈیکے }کے باعث اربوں سال تک گرم ایک پگھلاہوا  رہ سکتا ہے۔
ہم ناممکن کو اپنے  اندیشوں کی بناء پر نظر انداز کرتے ہیں۔انیس سو بیس تا انیس سو تیس ، جدید راکٹ سائنس کے بانی رابرٹ گوڈارڈ شدید تنقید کی زد میں تھے ان لوگوں کی جانب سے جن کہ نزدیک راکٹ کبھی خلاء تک سفر نہیں کرسکتاتھا، وہ اس  کے خواب کو تنزیہ گوڈراڈ کی حماقت کا نام دیتے تھے۔انیس سو اکیس میں نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر نے ڈاکٹر گوڈراڈ کے کام کو آڑے ہاتھو ں لیتے ہوئے لکھا کہ "پروفیسر گوڈراڈ غالبا عمل اور رد عمل کے درمیان رشتے سے ناواقف ہیں انہیں راکٹ کو خلاء سے بہتر کسی شے کی ضرورت ہوگی جس کہ خلاف وہ ردِعمل کرسکے انہیں شاید وہ بنیادی علم بھی نہیں جو آج کل ہائی اسکولوں میں بانٹی جارہا ہے"۔راکٹ کی پرواز ممکن ہیں نہیں ہے ، ایڈیٹر صاحب نے لکھا، کیوں خلاء میں ہوا موجود ہی نہیں جسے دکھیل کر راکٹ آگے بڑھ سکے۔بدقسمتی سے  محض ایک سربراہ مملکت گوڈاراڈ کہ "ناممکن " راکٹ کی حقیقت کو جان سکا اور وہ تھا ایڈولف ہٹلر، دوسری جنگ عظیم کے دوران جدید جرمن وی۔۲ راکٹ اپنے اندر موت اور تباہی لئے لندن  پر برسے اور اسے تقریبا گھنٹوں پر جھکادیا۔

ناممکنات پر تحقیق ہماری دنیا کی تاریخ بھی بدل سکتی ہے، انیس سو تیس میں ذیادہ تر سائنسدان بشمول البرٹ آئن اسٹائن کے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایٹم بم بنانا ممکن نہیں ، طبعیات دان جانتے تھے کہ آئن اسٹائن کی مشہور ترین مساوت {توانائی ، کمیت مساوت }کے مطابق ایٹم کے نیوکلیئس میں ایک عظیم توانائی چھپی ہے  لیکن محض ایک ایٹم حاصل ہونے والی حقیرتوانائی کسی طور کارگر نہ تھی لیکن ایٹمی طبعیات دان لیو سلارڈ کو انیس سو چودا میں شائع ہونے والا ایچ جی ویلز کا ناول "دنیا کی آزادی" یاد تھاجس میں ویلز نے ایٹم بم کی پیشن گوئی کی تھی ۔ایچ جی ویلز نے ناول میں لکھا تھا کہ ایٹم بم بنانے کا معمہ ایک طبعیات دان انیس سو تینتیس میں حل کرلے گا، حسن اتفاق دیکھئے سلارڈ کو یہ ناول انیس سو بتیس میں ملا جس نے اسکا حوصلہ بڑھایا، انیس سو تینتیس میں بلکل جیسا کہ ناول میں دو دھائی قبل پیشن گوئی کی گئی تھی سلارڈ نے ایک ایٹم سے بڑھ کر زنجیری تعامل کے ذریعے ارب ہا ایٹم کی تقسیم سے ایٹم بم کا راز پالیا۔ سلارڈ نے فوری  ضروری تجربات شروع کردیئے اور آئن اسٹائن اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کے درمیان مذاکرات کروائے جو بعد ازاں مین ہیٹن پروجیکٹ اور ایٹم بم کی تیاری کا باعث بنے۔

بار بار ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ناممکن پر تحقیقات سائنس میں نئی راہیں کھولتی ہیں، کیمیاء اور طبعیات کی سرحدوں کو دھکیلتی ہیں اور سائنسدانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ "ناممکن " کی تعریف دوبارہ لکھیں۔وہ جیسا کہ سر ولیم اوسلر نے ایک دفعہ کہا تھاکہ"ایک زمانے کی فلاسفی اگلے زمانےکی فضولیات بن جاتی ہیں اور گذرے کل کی بیوقوفیاں آنے والے کل کی حکمت کہلاتی ہیں"۔اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کون سے ٹیکنا لوجیز ایسی ہیں جو آج تو ناممکن دکھائی دیتی ہیں، لیکن مستقبل میں کچھ دہایوں یا صدیوں بعد روز مرہ زندگی کا حصہ ہونگی،کم از کم ایک ٹیکنا لوجی یعنی ٹیلی پورٹیشن جو کہ ناممکن سمجھی جارہی تھی آج حقیقت بن  چکی ہے کم از کم ایٹموں کی حد تک تو۔

۔معروف نظری طبعیات دان میشیو کاکو کی زیرِمطالعہ کتاب "ناممکنات کی طبعیات"کے پیش لفظ سے اقباس



4 comments:

  1. دلچسپ
    اور ترجمہ بھی رواں اور آسان

    ReplyDelete
  2. اصل کتاب کو پڑھے بغیر ترجمے کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی۔ لیکن بہر حال آپکی تحریر میں روانی ہے۔
    اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ناممکن ، ناممکن نہیں۔ ایک سائینسداں کو لفظ ناممکن نہیں استعمال کرنا چاہئیے یہ سائینس کی رو سے گناہ ہے۔
    :)
    عظیم سائیندانوں نے ایسا کیا کیونکہ سائینس اس وقت انتہائ ابتدائ حالت میں تھی۔ در حقیقت اس وقت ایک سائینسداں چاہے تو منکر خدا بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ کہ انسان نے جو تصور خدا بنایا ہے ہو سکتا ہے خدا اس سے کوئ الگ چیز ہو۔
    اچھا دلچسپ موضوع ہے۔

    ReplyDelete
  3. تبھی میں کہوں کہ تحریر جانی پہچانی کیوں لگ رہی ہے۔ :)

    ReplyDelete
  4. پرنٹ نکال کر سکون سےپڑھا جائے گا اس تحریر کو

    ReplyDelete